Tuesday 14 February 2017

نوجوان لڑکیوں میں ناول پڑھنے کا شوق


This is not feature  by any way. Rather its article. Feature is always reporting based. Its first objective is to entertain and then info. It can not be published as feature.
When you  sent on Feb 14? 
Mind it BIO format is template of inpage. Next time do not send in BOI format
No proper file name. Despite repeated reminder it is not followed. 
Writer's name  is must in the language in which write up is written. 
Also write roll number, class etc in the text  

نوجوان لڑکیوں میں ناول پڑھنے کا شوق


ناول کو عام طور پر لمبی داستان افسانے کے کردروں اور واقعات کو نشرکی صورت میں بیان کرنے کو ناول کہتے ہیں۔ناول میں کہانیاں سلسلہ وار چلتی رہتی ہیں۔
ناول ہمارے یہاں انگریزوں سے آیا ہے اور آتے ہی مقبول ہوگیا ہے۔ ایک انگریزی نقد نے ناول کی تعریف کچھ یوں انداز میں کی ہے: قصے کی کتاب جونثر میں ہو ،اور اس میں زندگی کی ہو با ہو تصویر۔ وہ ایک خاص ذہنی روجہان کی تحت لکھی گئی ہو۔ اور اس میں رابطہ اور یک رنگی ہو۔




Why this pace is left empty?




















بنیادی طورپر ناول ایک قصہ یہ کہانی ہوتی ہے۔ ناول عموماََ زندگی کی ایک عہد اور دور پر محیط ہوتا ہے اور اسکے داخلی اور اندرونی لہروں کی ترجمانی کرکے عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ قصہ کہانی کا یہ اندازہ ہمیں عرب کی طرف سے ملا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ہاں قصہ کہانی کا وجود نہیں تھا۔ ہمارے ہاں قصہ کہانی کاوجود آج سے نہیں بلکہ قدیم داستانے اور کہانیاں اور قدریم داستانے موجود تھی جنہیں ناول کی ابتدائی شکل کہہ سکتے ہیں۔ بالخصوص باغ وبہار، تعلیم ہوش و ر غادستان امیر حمزہ، افسانہ عجیب، عرشے محفل وغیرہ لیکن اردو میں جدید کہانیوں کا آغاز 1857کے لگ بھگ ہوا تھا۔ اس کی ابتداڈپٹی نظیر احمد کے اخلاقی قصوں سے ہوئی تھی۔



اردو ادب میں بے شمار ناول کے اقسام مووجد ہیں ۔مثلاََ رومانی، اخلاقی ، اسراری، رمزائی عشقیائی ، افسانوی مگر ان سب کو رومانی ناول ہی تصور کیا جاتا ہے ۔ دوسرے قصے میں نفسیانی ناول آتے ہیں ایک وہ جن میں مشورے کی تصویر ہوں دوسرے وہ جو سیرت اور ارتقاء پر زور دیتے ہوں، تیسرے وہ جن میں تخیل نفسی سے کام لیا جاتا ہو۔ لڑکیوں میں ناول پڑھنے کا شوق سب سے زیادہ تب آیاجب ناول میں لڑکیوں کے من پسند کہانیاں آنے لگیں، جس میں اردو ادب کے نام ور ناول شامل ہیں۔ جیسے کہ پیر کامل ، آب حیات، من سلوے، زندگی گلزار ہے ، حاصل ، لاحاصل، نمل، جنت کے پتے، اور بھی دوسرے مشہور ناول فہرست ہیں۔
ان سب ناول کی کہانی آج کل کی نوجوانوں لڑکیوں کی سوچ سے ملتی جلتی ہیں، اگر دیکھا جائے تو ناول نگاری میں بہترین کارکردگی کرنے والے ڈپٹی نظیر احمد نے مشہور ناول لکھے تھے اس میں لڑکیوں کو بہت اہمیت دی گئی تھی وہ ناول لکھا تو پاکستان بننے سے پہلے تھا مگر اس کی گونج آج تک ہے ۔ ڈپٹی صاحب کا مشہور ناول اور اکبری، اصغری کو ڈرامے کی صورت میں تبدیل کیا گیا تاکہ نوجوان لڑکیوں میں ناول پڑھنے کا شوق اور جنون اجا گر ہو۔
ناول کا رہجان ہمارے سماج کی لڑکیوں میں تب زیادہ ترجیح دینے لگا جب ناول ڈرامے یا فلم کی شکل دی گئی ۔جیسے کہ نامور ناول نگار فرحت اشتیاق کے ناول زندگی گلزار بن روئے ، ہمسفر، کو ڈرامے اور فلم میں تبدیل کیا گیا۔فرحت اشتیاق زیادہ تر ہمارے سماج کی لڑکیوں کی من پسند کہانیاں بیان کی ہیں مثلاََ: ہمارے معاشرے میں رومانی اور سماجی کہانیوں کو
زیادہ تر جیع دی جاتی ہے تو یہ سب ان ناول کی کہانی میں موجود ہیں۔
اردو ادب میں نام ور مشہور ناول نگاروں نے ایک نام نمر ہ احمد کا بھی ہے جنہوں نے اپنے ناول میں رومانی اور سماجی کرداروں سے ہٹ کر افسانوی کررداروں کو اپنے ناول کا موضوع بنایا۔ ہمارے معاشرے کے آدھی سے زیادہ لڑکیاں ناول میں افسانوی کردار کی دیوانی ہوتی ہے یا پھر سماجی رومانی ناول کو ترجیح دیتی ہیں یا پھر ان ناول میں شوق رکھتی ہیں جن میں اصلاحی تربیت کے لحاظ س لکھی گئی ہو جیسے کہ نمرہ احمد کے چند نامور ناول موجود ہیں مثلاََ:جنت کے پتے،نمل کراکرم کا تاج محل، موسف وغیرہ ان کی کہانیاں ہمارے سماج سے بہت ملتی جلتی ہے اس نمر احمد نے ہمار یمعاشرے کی لڑکویوں کی عادتوں ، انک یباتونں ، انکی خواہشات اور پردہ جو کہ آج کل نیا رواج بن چکا ہے اس اوجا گر کیا گیا ہے ، ان ناول میں ہمارے سماج کی نوجوانوں کو بہت اچھی سی تنبیہ کی گئی۔
ناول نگاری کے ذریعے ہمارے معاشرے میں خواتین اور بچوں کے ان مسائل کو اجر کیا گیاہے ۔جن سے گھریلو یا پھر کم یافتہ تعلیم خواتین ناواقف تھی۔
اگرا ن سب باتوں کا نچوڑ نکالاجائے تو اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ کوئی بھی چیز حد سے زیادہ یا کم استعمال کرنے سے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
اسی طرح اگر ناول اور قصے کہانیوں کو زیادہ اہمیت دی جائے تو اس سے عام اور روز مرہ کی زندگی پر منفی اثر کر سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment