امرہ شیخ 2k15/MC/34 BS-III
انٹرویو
ایڈووکیٹ : قرعۃ العین گدی پٹھان
"جہاں آج کی دنیا میں انصاف کا ملنا مشکل تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں آج بھی وکلا ہمیں انصاف دلانے کے لئے ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اس کار خیر میں پاکستان میں قائد اعظم، علامہ اقبال اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے نامور شخصیت نے حصہ لیا ہے۔ ان میں ہی ایک حوا کی بیٹی کا نام بھی شمار ہوتا ہے۔
" ایڈووکیٹ قرعۃالعین گدی پٹھان ہیں"
س وکالت کا شعبہ کس حدتک عوام کے لئے مفید ہے؟
ج لیوی تھان کہتا ہے کہ انسان کی زندگی بے یارو مددگار، محتاج اور سنگدلانہ ہے۔ اس طرح جرمنی ٹیلر کے مطابق بھیڑیوں کا ایک گلہ انسانوں سے زیادہ پر امن ہے۔ کئی ہزاروں سال پہلے انسانوں کی سرشت کو سمجھتے ہوئے وکالت کے شعبے کو عوام کے مفاد کے لئے قائم کیا۔ تا کہ کسی انسان کے حقوق کو جابر، ظالم غصب نہ کرسکے۔ اس لئے ملک میں نظام عدل، قائم کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے جرائم پیشہ وار لوگوں کو سزا دینے کے لئے حکومت عدالتیں قائم کرتی ہیں۔ تا کہ عدالتیں عوام کے مفاد اور ان کے حقوق کا تحفظ کرسکیں۔
س کیا عام عوام کو بھی عدالتوں میں انصاف حاصل ہوتا ہے؟
ج انصاف سب کے لئے ہے۔ عدالتیں یہ نہیں دیکھتی کہ عوام عام ہے یا خاص ۔ مقدمات کا تصفیہ کرتے وقت عدالتیں انصاف کے تقاضوں کو محلوظ رکھتی ہیں۔ یہ مثال کوئی بہت پرانی نہیں کہ ہماری یاداشت میں نہ رہے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے نہ صرف عدالت کا سامنا کیا بلکہ ان ہیں سزا بھی ہوئی اور ابھی موجودہ وزیر اعظم اور انکی فیملی بھی cases کا سامنا کررہی ہے۔ اس طرح کی مثالیں تاریخ میں بے شمار ہے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں۔
س عام مقدمات میں اتنا وقت کیوں لگتا ہے؟
ج میرا خیال میں عام مقدمات میں وقت لگنا کہنا غلط ہوگا۔ ہاں ! یہ کہا جاسکتا ہے کہ مقدمات کو حل کرنے میں وقت کیوں لگتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہے کسوں کی ذیادتی عدالتوں کی کمی، وکلا صاحبان کا غیر ضروری تاریخیں لینا اور موکل / مدعی / سائل کا سچ کو موڑ ٹوڑ کر بتانا بھی تاخیر کا باعث بنتا ہے اور انصاف تک پہنچنے کے لئے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔ ہر پہلو کو باریکی سے جانچہ جاتا ہے تا کہ کسی کے ساتھ نہ انصافی نہ ہو۔
س آج کل کونسے مسائل پر مقدمے چل رہے ہیں؟
ج کسی بھی دور میں مقدمات کی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی ۔ ہاں کبھی کچھ جرائم زیادہ ہونے لگتے ہیں۔ اور بنیادی جرائم تو ہر دور میں ہی ہوتے رہتے ہیں، چوری، ڈاکہ، اغواء، اسٹریٹ کرائم وغیرہ آج کل جو الگ نوعیت کے مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ یا جن کا تناسب بڑھ گیا لئے ہے وہ استحصال بالجبر (Extortion) جبری حصدی، Cybercrime ، توہین (رسالت) مذہب (Blasphemy)، Kickback وغیرہ کے مقدمات ہیں۔
س پاکستانی میں صرف امیروں کو انصاف حاصل کیوں ہے؟
ج کہاوت ہے کان ادھر سے پکڑو یا ادھر سے بات برابر ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے میں نے اس کا مفصل جواب دے دیا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں اور An act of the Court shall prejudice no man چاہے وہ امیر ہو یا غریب فیصلہ ہمیشہ انصاف کے تقاضوں کو دیکھ کر کیا جاتا ہے ۔
س پاکستان میں غریبوں کو انصاف ممکن بنانے میں قانون کتنی مدد کرتا ہے؟
ج اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہونگی کہ قانون کو بنایا ہی کیوں گیا ہے۔ قانون لوگوں کے آپس میں حقوق اور ذمہ داریاں پوری کروانے سے متعلق ہوتا ہے۔ اور کوئی کسی کے حق کو تلف نہ کردے اس بات کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے قانون میں اب اس سوال پر آنا چاہونگی کہ پاکستان میں غریبوں کو انصاف ممکن بنانے کے لئے قانون کیا مدد کرتا ہے۔
سی پی سی (CPC) آرڈر XXXIII Suits by paupers آرڈر میں مفلسوں غریبوں کو یہ استثناء دیا گیا ہے کہ وہ کورٹ فیس جمع کرائے بغیر کیس دائر کرسکتے ہے
س جرم کیوں ہوتے ہیں؟
ج میری نظر میں جب لوگوں کو انصاف نہ ملنے اور ان کے حقوق کا استحصال کیا جائے، بے روزگاری حد سے بڑھ جائے اور جس معاشرے میں انسانوں کے درمیان برابری نہ رہے یہ ساری چیزیں مل کر ملک میں جرم کو پروان چڑھاتی ہے۔
س پاکستانی قانون اور ممالک کی نسبت کمزور کیوں ہے؟
ج کمزوری پاکستانی قانون میں نہیں نظام میں ہے دوسرے ممالک میں قانون کی صورتحال اس لئے بہتر ہے کیونکہ وہاں کا نظام بہتر ہے ادارے مستحکم ہے ہمیں بھی بس یہی کرنے کی ضرورت ہے۔
س وکالت کے شعبے کے بارے میں آپکی رائے؟
ج میرے نزدیک وکالت کے شعبے کی حیثیت ایسی ہے جسے انسان کے لئے آگ، ہوا، مٹی اور پانی ہے۔ جسے انسان ان چیزوں کے بغیر نہیں رہ سکتا ویسے ہی ایک معاشرہ وکالت کے شعبے کے بغیر نہیں رہے سکتا۔ اس شعبے کو انبیاء کرام کے شعبے سے ملایا جاتا ہے۔ اس شعبے کی اہمیت اور وقعت کا اندازہ ہم صرف اس بات سے ہی لگا سکتے ہیں۔
انٹرویو
ایڈووکیٹ : قرعۃ العین گدی پٹھان
"جہاں آج کی دنیا میں انصاف کا ملنا مشکل تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں آج بھی وکلا ہمیں انصاف دلانے کے لئے ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اس کار خیر میں پاکستان میں قائد اعظم، علامہ اقبال اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے نامور شخصیت نے حصہ لیا ہے۔ ان میں ہی ایک حوا کی بیٹی کا نام بھی شمار ہوتا ہے۔
" ایڈووکیٹ قرعۃالعین گدی پٹھان ہیں"
س وکالت کا شعبہ کس حدتک عوام کے لئے مفید ہے؟
ج لیوی تھان کہتا ہے کہ انسان کی زندگی بے یارو مددگار، محتاج اور سنگدلانہ ہے۔ اس طرح جرمنی ٹیلر کے مطابق بھیڑیوں کا ایک گلہ انسانوں سے زیادہ پر امن ہے۔ کئی ہزاروں سال پہلے انسانوں کی سرشت کو سمجھتے ہوئے وکالت کے شعبے کو عوام کے مفاد کے لئے قائم کیا۔ تا کہ کسی انسان کے حقوق کو جابر، ظالم غصب نہ کرسکے۔ اس لئے ملک میں نظام عدل، قائم کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے جرائم پیشہ وار لوگوں کو سزا دینے کے لئے حکومت عدالتیں قائم کرتی ہیں۔ تا کہ عدالتیں عوام کے مفاد اور ان کے حقوق کا تحفظ کرسکیں۔
س کیا عام عوام کو بھی عدالتوں میں انصاف حاصل ہوتا ہے؟
ج انصاف سب کے لئے ہے۔ عدالتیں یہ نہیں دیکھتی کہ عوام عام ہے یا خاص ۔ مقدمات کا تصفیہ کرتے وقت عدالتیں انصاف کے تقاضوں کو محلوظ رکھتی ہیں۔ یہ مثال کوئی بہت پرانی نہیں کہ ہماری یاداشت میں نہ رہے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے نہ صرف عدالت کا سامنا کیا بلکہ ان ہیں سزا بھی ہوئی اور ابھی موجودہ وزیر اعظم اور انکی فیملی بھی cases کا سامنا کررہی ہے۔ اس طرح کی مثالیں تاریخ میں بے شمار ہے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں۔
س عام مقدمات میں اتنا وقت کیوں لگتا ہے؟
ج میرا خیال میں عام مقدمات میں وقت لگنا کہنا غلط ہوگا۔ ہاں ! یہ کہا جاسکتا ہے کہ مقدمات کو حل کرنے میں وقت کیوں لگتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہے کسوں کی ذیادتی عدالتوں کی کمی، وکلا صاحبان کا غیر ضروری تاریخیں لینا اور موکل / مدعی / سائل کا سچ کو موڑ ٹوڑ کر بتانا بھی تاخیر کا باعث بنتا ہے اور انصاف تک پہنچنے کے لئے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔ ہر پہلو کو باریکی سے جانچہ جاتا ہے تا کہ کسی کے ساتھ نہ انصافی نہ ہو۔
س آج کل کونسے مسائل پر مقدمے چل رہے ہیں؟
ج کسی بھی دور میں مقدمات کی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی ۔ ہاں کبھی کچھ جرائم زیادہ ہونے لگتے ہیں۔ اور بنیادی جرائم تو ہر دور میں ہی ہوتے رہتے ہیں، چوری، ڈاکہ، اغواء، اسٹریٹ کرائم وغیرہ آج کل جو الگ نوعیت کے مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ یا جن کا تناسب بڑھ گیا لئے ہے وہ استحصال بالجبر (Extortion) جبری حصدی، Cybercrime ، توہین (رسالت) مذہب (Blasphemy)، Kickback وغیرہ کے مقدمات ہیں۔
س پاکستانی میں صرف امیروں کو انصاف حاصل کیوں ہے؟
ج کہاوت ہے کان ادھر سے پکڑو یا ادھر سے بات برابر ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے میں نے اس کا مفصل جواب دے دیا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں اور An act of the Court shall prejudice no man چاہے وہ امیر ہو یا غریب فیصلہ ہمیشہ انصاف کے تقاضوں کو دیکھ کر کیا جاتا ہے ۔
س پاکستان میں غریبوں کو انصاف ممکن بنانے میں قانون کتنی مدد کرتا ہے؟
ج اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہونگی کہ قانون کو بنایا ہی کیوں گیا ہے۔ قانون لوگوں کے آپس میں حقوق اور ذمہ داریاں پوری کروانے سے متعلق ہوتا ہے۔ اور کوئی کسی کے حق کو تلف نہ کردے اس بات کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے قانون میں اب اس سوال پر آنا چاہونگی کہ پاکستان میں غریبوں کو انصاف ممکن بنانے کے لئے قانون کیا مدد کرتا ہے۔
سی پی سی (CPC) آرڈر XXXIII Suits by paupers آرڈر میں مفلسوں غریبوں کو یہ استثناء دیا گیا ہے کہ وہ کورٹ فیس جمع کرائے بغیر کیس دائر کرسکتے ہے
س جرم کیوں ہوتے ہیں؟
ج میری نظر میں جب لوگوں کو انصاف نہ ملنے اور ان کے حقوق کا استحصال کیا جائے، بے روزگاری حد سے بڑھ جائے اور جس معاشرے میں انسانوں کے درمیان برابری نہ رہے یہ ساری چیزیں مل کر ملک میں جرم کو پروان چڑھاتی ہے۔
س پاکستانی قانون اور ممالک کی نسبت کمزور کیوں ہے؟
ج کمزوری پاکستانی قانون میں نہیں نظام میں ہے دوسرے ممالک میں قانون کی صورتحال اس لئے بہتر ہے کیونکہ وہاں کا نظام بہتر ہے ادارے مستحکم ہے ہمیں بھی بس یہی کرنے کی ضرورت ہے۔
س وکالت کے شعبے کے بارے میں آپکی رائے؟
ج میرے نزدیک وکالت کے شعبے کی حیثیت ایسی ہے جسے انسان کے لئے آگ، ہوا، مٹی اور پانی ہے۔ جسے انسان ان چیزوں کے بغیر نہیں رہ سکتا ویسے ہی ایک معاشرہ وکالت کے شعبے کے بغیر نہیں رہے سکتا۔ اس شعبے کو انبیاء کرام کے شعبے سے ملایا جاتا ہے۔ اس شعبے کی اہمیت اور وقعت کا اندازہ ہم صرف اس بات سے ہی لگا سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment